حیدرآباد۔3 جنوری (راست) قرآن مجید حق تعالیٰ سبحانہ کا وہ آخری صحیفہ ہے جو تاقیام قیامت انسانیت کی صلاح وفلاح کی رہنمائی کے لئے کافی ہے۔ یہ حکم الہٰی پروردگار نے اپنے لئے محبوب وبرگزیدہ پیغمبر آخر الزماں خاتم النبیین رحمۃ للعلمینؐ پر نازل فرمایا ابتدائی وحی مبارک سے آخری وحی تک کوئی 23 برسوں میں یہ منشور اسلامی رسولؐ پر وقفہ وقفہ سے اتارا گیا جیسا کہ ارشاد حق تعالیٰ ہے اس کتاب میں دنیا کی کوئی خشک وتر ایسی نہیں جس کا ذکر نہ ہو زندگی کے سبھی مسائل اور ان کا حل سبھی کچھ موجود ہے اللہ کے پیارے رسول جبرائیل امین سے یہ آیات سماعت فرماتے۔ اس طرح سارا قرآن کے اولین حافظ تو خود رسول اللہؐ ہیں۔ چنانچہ احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اکرمؐ ہر سال رمضان میں جس قدر بھی قرآن نازل ہوتا وہ جبرائیلؑ کو سناتے۔ وصال سے قبل آپؐ نے مکمل قرآن کو دو مرتبہ تلاوت کی۔ واضح رہے کہ قرآن کی جو ترتیب آج ہمیں نظر آتی ہے وہ رسول اکرمؐ کو وحی ہی کے ذریعے بتادی گئی تھی۔ اس طرح ہر سورۃ بلکہ ہر آیت کی جگہ خود رسول اللہؐ نے مقرر فرما دی۔ ایک اور بات اللہ تعالیٰ نے نزول اجلال کے ساتھ ہی کافروں کو ایک چیلنج یہ دیا گیا۔ کہ وہ قرآن جیسی ایک سورۃ یا کم از کم ایک آیت تصنیف کر کے دکھائیں مگر ایسا تب ممکن ہوا اور نہ روز حشر تک ممکن ہو سکے گا۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر عقیل ہاشمی سابق صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی نے اپنے خطاب بعنوان قرآن مجید کی کتابی صورت
میں کیا‘ جامع مسجد عالیہ گن فاؤنڈری میں شریعت انفارمیشن کی (506) ویں نشست میں کیا۔ نشست کا آغاز حافظ محمد عرفان احمد‘ کی قرأت کلام اللہ سے ہوا مقرر کا تعارف کرتے ہوئے غلام یزدانی سینئر ایڈوکیٹ نے کہا قرآن ہمارے ایمان کا مرکز ومحور ہے اسکے ذریعے اہم اپنی زندگیوں میں تبدیلیاں لاسکتے ہیں۔ جو خدا کی خوش نویدی اور اسکی مغفرت کے لئے اساسی حیثیت سے جدا نہیں۔ ڈاکٹر عقیل ہاشمی نے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے قرآن کی بیشتر آیات سے اس کی عظمت وبزرگی کے ساتھ ساتھ اسے مسلمانوں کی ایمانی حرارت اور حرمت کے لئے لازمی قرار دیا۔ انہوں نے بتایا کہ رسول اکرمؐ کے حیات میں قرآن کی کوئی کتابی صورت نہ تھی بلکہ یہ مختلف انداز سے اونٹوں کی ہڈیوں‘ چمڑوں‘ اور دیگر اشیاء پر لکھ لی جاتی تھیں۔ جبکہ صحابہ کرامؓ سے حفظ کر لیا کرتے تھے بعد ازاں حضرت صدیق اکبرؓ نے حضرت عمر فاروقؓ سے باہمی مشاورت کے بعد اسے یکجا کیا اور اسے اپنے ہاں محفوظ رکھا۔ یہی صورت حال حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت میں بھی رہی لیکن حضرت عثمان غنیؓ کے دور خلافت میں جبکہ عرب سے ہٹ کر اقطاع عالم میں اسلام کی وسعت ہونے لگی اور قرآنی احکام کی تعلیمات کی ضرورت محسوس کی گئی تب حضرت عثمانؓ نے مختلف علاقوں میں موجود قرآن کو طلب کر کے ایک قریشی لہجہ پر متعین فرمایا تب سے آج تک یہ قرآن بلکہ کسی حذف وترمیم لاکھوں مسلمانوں کا سرمایہ دین دنیا ہے۔ مقرر کی دعا پر نشست کا اختتام عمل میں آیا۔